کراچی کی ویران سڑکیں اور بلوچوں کی صدائیں
ایک شامیانے میں تین خواتین اور دو درجن کے قریب نوجوان موجود ہیں جبکہ دیوار پر ایک پینافلکس آویزاں ہے جس پر وہی پرانا نعرہ تحریر ہے، ’بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو بازیاب کرو۔‘
کراچی کی خالی سڑکیں، کسی کسی کونے میں حفاظاتی انتظام کے لیے پولیس اہلکار تعینات ہیں جبکہ بس سٹاپ پر وہ ماسیاں واپسی کے لیے سواری کی منتظر ہیں جو ’مالکن‘ کی ہدایت پر عید کی صبح جلدی آگئیں تھیں۔
جو بازار گذشتہ دنوں پر ہجوم تھے اب ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں، وسطی شہر میں ان بازاروں کے درمیان واقع کراچی پریس کلب کا فٹ پاتھ عید کی چھٹی کے روز بھی آباد ہے۔
ایک شامیانے میں تین خواتین اور دو درجن کے قریب نوجوان موجود ہیں جبکہ دیوار پر ایک پینافلکس آویزاں ہے جس پر وہی پرانا نعرہ تحریر ہے، ’بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ کو بازیاب کرو۔‘
بی ایس او کے مطابق زاہد بلوچ عرف آزاد بلوچ کو مبینہ طور پر رواں سال 18 مارچ کو کوئٹہ سے فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ زاہد کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے باہر ہی بی ایس او کی رکن لطیف جوہر نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی، لیکن 46 روز کے بعد بلوچ قیادت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل پر انھوں نے بھوک ہڑتال ختم کردی تھی۔
کراچی میں عید کے روز احتجاجی کیمپ کی قیادت بی ایس او آزاد کی وائس چیئرمین کریمہ بلوچ کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی عید زاہد بلوچ اور ذاکر مجید سمیت لاپتہ ہزاروں بلوچ فرزندان پر قربان ہے، ان کی خواہش ہے کہ بلوچوں کے آنے والے نسلوں کو کسی عید پر اس طرح احتجاجی کیمپوں میں نہ بیٹھنا پڑے۔
کریمہ بلوچ کے مطابق انھیں چار ماہ گزرنے کے باجود کہیں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا، انھوں نے اقوام متحدہ کو بھی کئی خط تحریر کیے،اس کے علاوہ اپنے نمائندوں کو بھی ان کے پاس بھیجا لیکن ایکشن لینا تو دور کی بات ان خطوط کا جواب تک نہیں دیا گیا۔
گذشتہ بار احتجاجی کیمپ پر بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بھی آ کر زاہد کی بازیابی کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم کریمہ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ تو پہلے ہی اپنی بے بسی کا اظہار کر چکے تھے اب ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
کیمپ میں موجود خدیجہ بلوچ نے بتایا کہ کوئٹہ پولیس ابھی تک یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ زاہد بلوچ کو حراست میں لیا گیا ہے۔ خدیجہ کے مطابق وہ چشم دید گواہ کے طور پر ایف آئی آر درج کرانے گئے تھے لیکن پولیس نے انکار کیا جس کے بعد عدالت کے حکم پر جبری گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی لیکن پولیس کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
بی ایس او کے یہ کارکن نعرے لگا کر اپنے حلق خشک کر تے رہے لیکن ان کی یہ صدا سننے والے کوئی نظر نہیں آیا، پاکستانی میڈیا ویسے ایسی کیمپوں پر کم منڈلاتا ہے، عید کی چھٹی کی وجہ سے پریس کلب کی عمارت بھی خالی تھی جبکہ نشریاتی اداروں کی اولیت صبح کو نماز کے اجتماع اور بعد میں تفریحی مقامات بن چکے تھے۔
کراچی پریس کلب کے علاوہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے پریس کلب کے باہر بھی ایک ایسا ہی کیمپ قائم ہے، جس کے روح رواں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ ہیں۔اس احتجاجی کیمپ میں ان کی یہ نویں عید تھی۔ وہ گذشتہ پانچ برسوں سے سراپا احتجاج ہیں۔
کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کرکے لاپتہ بلوچوں کا اشو دنیا میں اجاگر کرنے والے 70 سالہ ماما قدیر کی خواہش ہے کہ وہ جنیوا تک لانگ مارچ کریں۔ انھوں نے بتایا کہ پچھلے دنوں ان کی اقوام متحدہ کے اہلکاروں سے ملاقات ہو چکی ہے اب انھیں این او سی کا انتظار ہے جیسے ہی اجازت ملے گی وہ بلوچستان سے ایران، ترکی، یونان اور اٹلی سے ہوتے ہوئے جنیوا پہنچیں گے اور بلوچوں سے ہونے والی زیادتیوں پر یادداشت نامہ پیش کریں گے۔