سفارت کاری ، بلوچ تحریک کی اہم ضرورت / کریمه بلوچ
مڈل ایسٹ اور سینٹرل ایشیا کے درمیان واقع بلوچستان کا تعلق ایک ایسے خطے سے ہے جو کئی دہائیوں سے نہ صرف مذہبی دہشت گردی سے متاثر رہا ہے بلکہ اِس خطے میں پاکستان جیسی ریاست بھی وجود رکھتی ہے جو پوری دنیا میں مذہبی دہشتگردی اور شدت پسندی کا مضبوط مرکز بناہوا ہے۔ لہٰذہ دنیا کی نظر میں بلوچستان کی آزادی کا مطلب دوسرے الفاظ میں ایک ایسی ریاست کا ٹوٹنا ہے جو کہ عالمی دہشتگردی کا کنٹرول سینٹر ہے۔ ان حقائق کے مدِنظر بلوچ کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے موجوہ پوزیشن میں مزید بہتری لا نے کے ساتھ دنیا کو یہ باور بھی کرائے کہ ایک آزاد بلوچستان کس حد تک خطے میں قیام امن کیلئے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔
بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے تین اہم خطوں کے سنگم پر واقع ایک ایسی زمین ہے جو ہر دور میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کی دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ جس طرح اس خطے میں پاکستان کا وجودبڑی طاقتوں کی ضرورت تھی اسی طرح بلوچستان کوپاکستان کے زیر تسلط رکھنا بھی انہی کے مفادات میں تھا۔
بلوچ دھرتی جغرافیائی حوالے سے اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اگر یہ زمین وسائل کے اعتبار سے بنجر بھی ہوتی تب بھی دنیا کیلئے اِس کی کشش برقرار رہتی۔ برطانیہ کی طرف سے رقبے کے لحاظ سے اس عظیم سرزمین کو ایران، افغانستان اور پاکستان میں منقسم کرنے کا بنیادی مقصد بھی سرد جنگ کے دوران خطے میں اپنی حکمرانی مضبوط کرنا اور بلوچوں کو کمزور کرکے یہاں اس دور کے سامراجی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کرنا تھا۔
بلوچستان کا مسئلہ خطے کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست میں بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے، جس کی بنیادی وجہ اس سرزمین کی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن ہے۔ مڈل ایسٹ اور سینٹرل ایشیا کے درمیان واقع بلوچستان کا تعلق ایک ایسے خطے سے ہے جو کئی دہائیوں سے نہ صرف مذہبی دہشت گردی سے متاثر رہا ہے بلکہ اِس خطے میں پاکستان جیسی ریاست بھی وجود رکھتی ہے جو پوری دنیا میں مذہبی دہشتگردی اور شدت پسندی کا مضبوط مرکز بناہوا ہے۔ لہٰذہ دنیا کی نظر میں بلوچستان کی آزادی کا مطلب دوسرے الفاظ میں ایک ایسی ریاست کا ٹوٹنا ہے جو کہ عالمی دہشتگردی کا کنٹرول سینٹر ہے۔
ان حقائق کے مدِنظر بلوچ کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے موجوہ پوزیشن میں مزید بہتری لا نے کے ساتھ دنیا کو یہ باور بھی کرائے کہ ایک آزاد بلوچستان کس حد تک خطے میں قیام امن کیلئے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قومی تحریکوں کی مکمل کامیابی کا بنیادی عنصر منظم عوامی طاقت ہی ہے مگر یہ بھی ایک تسلیم شدہ سچائی ہے کہ آج کے اِس گلوبلائز ڈدنیا میں کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار ہونے کیلئے عالمی برادری کے مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
کیونکہ آج کی اس جدید دنیا میں سفارت کاری ایک نئے محاز کی صورت میں ابھر رہی ہے، دور حاضر میں قوموں کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی ضروریات کو مدنظر رکھ کر دوسرے اقوام سے سفارتی تعلقات قائم کریں۔ سفارت کاری سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ ایک تحریک خود کو کسی بلاک کے مفادات کا محافظ بنا دے یا کہ اپنے عوام میں تنظیم کاری کے برعکس ساری امیدیں بیرونی دنیا سے ہی وابستہ کردے۔
سفارت کاری کا مقصد رابطہ کاری کے ذریعے بین الاقوامی سطع پر اپنی قومی ضروریات کے لئے گراؤنڈ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر اس نوعیت کی ایک بڑی تبدیلی کیلئے عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کے کردار کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اور یقیناََ اِس طرز کے اہم فیصلے میں شمولیت یا اس کی حمایت سے قبل وہ متعلقہ تحریک کی بالیدگی کو مدّنظر رکھ کر اُس کا جائزہ لیتے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے اناڑی پن اور غیرسیاسی رویوں کی وجہ سے گراؤنڈ میں پہنچنے والے نقصانات کے علاوہ عالمی سطح پر بھی بلوچ قومی تحریک کی ساکھ بڑی حد تک متاثر ہوئی ہے۔
اس دوران مختلف غیر متعلقہ پلیٹ فارمز پر منفی پروپگنڈہ کی شکل میں ہونے والے بے سروپا مباحثوں سے بین الاقوامی برادری کو ہم یہ پیغام پہنچا چکے ہیں کہ تحریک کی اکائیوں میں وہ سنجیدگی موجود نہیں جو کہ ایک تحریک یا ریاست کے زمہ داران میں موجود ہونی چاہیے۔ہماری تحریک کے ہمدرد و حامی تحریک میں دلچسپی لینے کے باوجود اس نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہم اگرچہ آزادی حاصل کربھی لیں لیکن ایک زمہ دار ریاست کی تشکیل سے اب تک بہت دور ہیں۔ تحریک کے حوالے سے مثبت یا منفی رجحانات دشمن کے پروپگنڈوں سے زیادہ اپنوں کے رویوں کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ جیسے کہ بلوچستان کی جغرافیائی پوزیشن کے بارے میں پہلے ذکر کیا جاچکا ہے،
آزادی کے بعد ایک ایسی ریاست جس کے چاروں اطراف مذہبی دہشتگرد منظم وجود رکھتے ہوں،نوآزاد ریاست کے لئے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا یا اپنی زمین کو استعمال ہونے سے روکھنا یقیناانتہائی مشکل کام ہوگا۔ یہ وہ پہلو ہے جسے کوئی بھی قوت بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرنے سے قبل ضرور سوچے گا۔
ہم بطور قوم ایک زمہ دار ریاست چلانے کا تاثر اس وقت قائم کرسکتے ہیں جب سیاسی اداروں کو منظم و مربوط اور فعال کرنے کے ساتھ اپنے مثبت رویوں کے ذریعے تحریک کی پختگی ثابت کریں۔ گ
زشتہ سالوں کی غیرسنجیدگی کے نتیجے میں ملنے والی نقصانات کے بعد ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ تحریک کی ساکھ کو بحال کرنے اور خود کو ری آرگنائز کرنے لئے سخت جدوجہد درکار ہے۔ اس جدوجہد کو تحریک کا کوئی ایک ادارہ اکیلے پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، لہذہ تمام پارٹیوں کیلئے ضروری ہے کہ تحریک کو آئندہ اس طرز کے منفی رویوں سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
سیاسی اداروں کو تحریک کو مزید منظم کرنے کے لئے اپنی پالیسیاں از سرِ نو مرتب کرنی چاہئیں۔ ایسی پالیسیاں جو داخلی طور پر عوام کوتحریک سے مربوط کریں اور سفارتی سطح پر تحریک کے لئے مواقع پیدا کریں۔ عالمی سیاست میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ نشیب و فرازکا سلسلہ جاری ہونے کے ساتھ ساتھ خطے کے حالات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں، اگر ہم نے مناسب تیاری وقت سے پہلے نہیں کی تو نہ صرف موجودہ تحریک کمزوریوں کا شکار ہوگی بلکہ قومی شناخت کو بھی خطرناک چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔
سیاسی اداروں کے اسٹرکچر سے لے کرسیاست کے طریقہ کارتک ہر چیز پر نظر ثانی کرنے اور موجوددہ ڈپلومیٹک فرنٹ کو مزید مضبوط بنانے کیلئے بحیثیت ماس پارٹی، بی این ایم اور دیگرسیاسی جماعتوں کو ٹرانسفارمیشن لانے کی ضرورت ہے۔
جس طرح ہمارے سیاسی سرکلز میں اس بحث پر اتفاق رائے پیدا ہو چکی ہے کہ ہمیں سیاسی و سفارتی محازکھولنے کی اشد ضرورت ہے، میں سمجھتی ہوں کے ہمارے پاس ایک ایسا بہترین سیاسی پروگرام موجود ہو جو کہ دنیا کے دیگر ممالک سے کوارڈی نیشن بنانے میں کارآمد ثابت ہو سکے۔کیونکہ اب تک عالمی سطح پر جو جدو جہد ہو رہی ہے وہ مظاہروں،احتجاجوں،
درخواستوں، اور لیٹرز تک محدود ہے، لہذا ہمیں ا س دائرے سے نکل کر عالمی سطح پر لوگوں کو شامل کرنا ہوگا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ دوسری قوموں کے ساتھ مضبوط رابطے قائم کریں۔
انسانی حقوق کے وہ ہمدرد جوہمیں انسانی حقوق کی بنیاد پر مدد کرنا چاہتے ہوں یاجو کوئی سیاسی لائن پر ہم سے اتفاق رکھتے ہیں ہمیں تمام میدانوں میں انہیں اپنے ساتھ لینے کے لئے پالیسی تشکیل دینا ہوگا۔ گزشتہ دہائیوں میں پنپنے والی اسلامی انتہا پسندی دنیا کے لئے ایک بہت بڑی وبال کی صورت اختیار کر چکی ہے،
خاص کر اسلامک اسٹیٹ پورے عالمی امن کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے جسے پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں سرگرم کر کے مضبوط کیاجا رہاہے۔پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت بلوچستان میں اسکا ایک منظم اسٹرکچر موجود ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے عالمی تجزیہ کاروں کی جانب سے میڈیا پر تجزیئے ہو رہے ہیں کہ پاکستان مذہبی شدت پسندی سے زیادہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف متحرک ہے۔
اس بات سے یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا اس بات کو محسوس کرچکی ہے کہ نہ صرف War On Terrorمیں پاکستان کا کردار صفر رہا ہے بلکہ دہشت گردی کے پنپنے میں بھی ہاتھ پاکستان کا ہی ہے۔ دراصل دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اُس کا حقیقی ہدف بس بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرنا ہے
۔بلوچ قومی شناخت کو درپیش چیلنجز، قومی نسل کشی اور اپنی زمین پر پاکستانی قبضے کو ختم کرنے لئے اپنے موقف کی عالمی سطح پر موثر تشہیر کرنے کے ساتھ ہی مضبوط و مربوط پالیسیوں کے تحت دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستان کس حد تک مذہبی دہشتگردی کو استعمال کر رہا ہے۔ آج امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کردوں کی حمایت میں بولتے دکھائی دیتے ہیں، ہلری کلنٹن جب سٹیج پرجاتی ہیں تووہ بھی کردوں کو امپاور کرنے ہی کی بات کرتی ہیں۔
دنیاکا ایک بڑا سیاسی بلاک اس بات پر متفق ہے کہ کُردوں کو سپورٹ کیا جائے تاکہ وہ اسلامی انتہا پسندی اوربلخصوص ISکے سامنے ایک مضبوط طاقت بن کر انکا مقابلہ کریں۔ بلوچستان میں بھی پرائیوٹ آرمی مذہبی شدت پسندوں کی شکل میں پاکستان آرمی کی پراکسی کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ ان شدت پسندوں کے خلاف بلوچوں کی جدوجہد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یقیناًاسلامی شدت پسندی کے خلاف اپنی پالیسیوں کی تشہیر دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ پاکستان دنیا کو بلوچستان میں رسائی نہیں دیتی، میڈیا مکمل بلیک آوٹ ہے،
غیر ملکی اداروں کو صحیح طور پر کام کرنے اور انٹرنیشنل تجزیہ نگاروں کو بلوچستان میں رسائی کی اجازت نہیں، جسکی وجہ سے دنیا بلوچستان کے بد ترین حالات سے بڑی حد تک ناواقف ہے۔لیکن اس صورت حال میں بلوچ قومی تحریک میں متحرک جماعتیں بلوچستان کے موجودہ حالات، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ریاست کی طرف سے استحصالی پالیسیوں اور اپنے موقف کے حوالے سے ایک مستند رپورٹ مرتب کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہیں۔
دنیا اداروں پر یقین رکھتی ہے دنیا کا بلوچ قومی تحریک کی طرف عدم توجہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچ لیڈرشپ نے پہلے اداروں کی تشکیل اور انکے منظم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے شخصیات کو سیاسی خدا بنانے میں وقت ضائع کیا۔ سیاسی محاذ ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا جو روز اول سے اداروں کے پابند تھے ہی نہیں۔ ایک ایسی تحریک جس کی کوئی منظم سیاسی جماعت ہی نہ ہو، وہ نہ گراؤنڈ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کی نظر میں قابل اعتماد ہے۔
کیونکہ دنیا کی طاقتیں کسی ریاست کی تشکیل سے پہلے اس اہم پہلو کو ضرور مدنظر رکھتی ہیں کہ اس تحریک میں متحرک ادارے ایک ریاست چلا سکتے ہیں کہ نہیں۔ اگر باالفرض دنیا کی طاقتیں اپنے مفادات کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی کمزور ریاست کی تشکیل میں مدد فراہم کریں بھی لیکن ایسی ریاستیں ناکامی کا شکار ہوکر نہ صرف اپنے عوام کی حالتِ زندگی میں بہتری نہیں لاسکتیں بلکہ باہمی جنگ و جدل کی نظر بھی ہو جاتی ہیں۔
ایسے ریاستوں میں ایک مثال خود پاکستان یا صومالیہ کی شکل میں دنیا کے سامنے موجودہیں۔ صومالیہ کی آزادی سے لے کر اب تک لاکھوں لوگ سول وار کی زد میں آ کر قتل ہو چکے ہیں۔ یا حال ہی میں تشکیل پانے والے جنوبی سوڈان کی ریاست اس کی ایک بہترین مثال ہے جہاں پر جنگی سردار آپسی کشت خون میں لگے ہوئے ہیں۔
وسائل پر قبضے کی جنگ میں کئی گروہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے پراکسی کا کردار ادا کررہی ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اب تک لاکھوں افراد وہاں پر آپسی جنگ کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی صورت حال بھی غربت، بیروزگاری اور عدم تحفظ کے حوالے مختلف نہیں۔ مندرجہ بالا مباحثے کا قطعاََ یہ مطلب نہیں کہ صرف دنیا کی طاقتیں ہی کسی قوم کو آزادی دلا سکتی ہیں۔ لیکن
آج کے اس موجودہ عالمی سیاسی تناظر میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی تحریک سیاسی و سفارتی مدد کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ہے۔
اوریقیناًمضبوط سیاسی پارٹیاں ہی وہ واحد ذریعے ہیں جو بلوچ قومی تحریک کے اندرونی اور بیرونی تقاضوں کے تحت پالیسیاں تشکیل دے سکتی ہیں۔
مگر اپنی گزشتہ غلطیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کیے بغیر منزل تک رسائی کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ یہ زمہ داری اب بلوچ قومی تحریک کے رہنماؤں کی ہے کہ وہ قبائلی سوچ یا شخصیات پر مبنی گروہوں کو پروان چڑھائیں گے یا سیاسی اداروں کو اس قابل بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے کہ وہ مضبوط پالیسیوں کے ذریعے بلوچ عوام کو منظم و متحد بنانے کے ساتھ ڈپلومیسی جیسے اہم میدانوں میں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ تحریک اور عوام کو شخصیات پر منحصر تنظیمیں رہنمائی نہیں کرسکتیں۔